Essay on the “Dowry is a Curse” for LAT and USAT

The curse of the Dowry System leads to problems like financial burdens on the bride’s family. Parents spend all the money they saved for years on their daughter’s wedding and gifts to please the groom. They take loans and debts from all possible sources which ultimately results in lower standards of living. It has become a big curse of our family system. That’s why it is an important topic to write an essay on. Here you will find an Essay on Dowry is a Curse for LAT and USAT examinations. We have arranged it in both Urdu and English Languages.

Essay on the “Dowry is a Curse” (English Version)

Jahiz is a corrupted form of the Arabic word “Jahaz” which means to prepare or provide equipment. But the things given to a girl by her parents on the occasion of marriage are called dowry. This custom of dowry is practiced in almost all nations in different forms.

Our Holy Prophet Khatam-ul-Nabieen (peace be upon him) has left a bright example for Muslims regarding dowry. Hazrat Khatam-ul-Nabieen (PBUH) could have offered the wealth of both worlds to his daughter Hazrat Fatimah. But Khatam-ul-Nabieen (PBUH) did not do that, rather, he set an ideal model for Muslims and he gave only one mill, one water pot, a Prayer rug, and four pieces of palm bark to his daughter as a dowry.

Ours is an Islamic country and Islamic laws are also enforced in it. Therefore, it is the duty of the people of faith to adopt the ritual of dowry in an Islamic manner while making the Prophet Muhammad (peace be upon him) a beacon.

The reality today is quite the opposite. Dowry has become a curse for the poor and middle class because the upper-class people have abandoned the golden rules of Islam regarding dowry, they give dowry to daughters more and boys try to do so. They want to get maximum dowry. Now it has come to the point that dowry is regularly negotiated. Boys clearly demand before marriage that they want a car, bungalow, TV air conditioner, refrigerator, generator, etc.

The practice of dowry has become common in our society. Now the dowry is also displayed and if the item is less than what the boys want, the girls are disrespected. Girls are taunted and bitter words about dowry lead to divorce. This is the reason why poor and middle-class girls remain virgins even after reaching the age of marriage because the fathers of this class force their girls heavily. cannot provide a dowry and no one accepts these girls without a dowry.

This situation has created a very bad impact on society. Keeping in view these constraints and evils, the government of Pakistan has made a law for dowry, which the poor and middle class must follow, but the nobles have not yet given any practical proof of it.

Dowry causes many other evils in society. When poor parents are unable to provide a dowry for their girls and their girls remain virgins, this section adopts the wrong means to get money. If he is an employee, he starts taking bribes and if he is a businessman, he betrays him, thus society starts getting dirty. Preventing it is like preventing cancer in society.

In the present era, when the economic problems and poverty have made it difficult for poor people to eat two meals a day, and now when a daughter is born in the house of a poor person, the focus of the poor person’s thoughts is the dowry of the daughter from that very day.

He gets concerned because, in the current era, the personal character and appearance of the girl are less seen, rather it is seen that her parents are also according to the standard of their desired dowry, i.e. boys. And after the girl’s marriage, they can send the sero abroad for tourism or reserve their boy’s share in a factory? And the high character and beautiful girls of those who do not fulfill the required or mentioned conditions are sitting in the house without a dowry.

So it is very important to end the curse of dowry. First of all, if the people in position and authority set an example and try to solve this problem at the community level, then there is no reason why the people should not follow in their footsteps.

The decisions of fraternities and panchayats are more effective than government laws. However, some communities have started serving tea and drinks instead of expensive food in wedding ceremonies. In this way, restrictions can be imposed on the level of brothers in relation to dowry, which solves this problem and also eliminates some evils in society.

Essay on the “Dowry is a Curse” (Urdu Version)

جہیز ایک لعنت

جہیز عربی زبان کے لفظ ‘‘جہاز’’ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی ساز وسامان تیار کرنا یا مہیا کرتا ہے۔ لیکن شادی کے موقع پر لڑکی کو اس کے والدین کی جانب سے دی جانے والی اشیا کو جہیز کہتے ہیں۔ جہیز کی یہ رسم مختلف صورتوں میں تقریبا تمام قوموں میں رائج ہے۔

ہمارے رسول پاک خاتم النبیینﷺ نے جہیز کے بارے میں مسلمانوں کے لیے ایک روشن مثال چھوڑی ہے۔ حضور خاتم النبیین ﷺچاہتے تو اپنی دختر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دونوں جہان کی دولت بھی پیش کر سکتے تھے۔ لیکن آپ خاتم النبیین ﷺنے ایسا نہیں کیا بل کہ مسلمانوں کے لیے ایک مثالی نمونہ قائم کیا اور آپ خاتم النبیین ﷺنے صرف ایک چکی ایک مشکینرہ، جانماز اور کھجور کی چھال کی چار پائی اپنی بیٹی کو جہیز میں دی ۔

ہمارا ایک اسلامی ملک ہے اور اس میں اسلامی قوانین بھی نافذ ہیں۔ لہٰذا اہل ایمان کا فرض ہے کہ شفقت رسول ﷺکو مشعل راہ بناتے ہوۓ جہیز کی رسم کوبھی اسلامی طریقے سے اپنانا چاہیے۔

 آج کل حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جہیز غریب اور متوسط طبقے کے لیے لعنت بن گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ اونچے طبقے کے لوگوں نے جہیز سے متعلق اسلام کے زریں اصولوں کو ترک کر دیا ہے وہ لوگ بیٹیوں کو بڑھ چڑھ کر جہیز دیتے ہیں اور لڑکے والے اس کوشش میں رہتے ہیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ جہیز ملے ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جہیز کے معاملے میں با قاعدہ سودے بازی کی جاتی ہے۔ لڑکے والے شادی سے پہلے صاف طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ انھیں کار، بنگلہ، ٹی وی ائیر کنڈیشنر ، ریفریجریٹر اور جنریٹر وغیرہ چاہیے۔

ہمارے معاشرے میں جہیز کی رسم کا چلن عام ہو گیا ہے۔ اب جہیز کی نمائش بھی کی جاتی ہے اور اگر چیز میں لڑکے والوں کی خواہش سے کچھ کم ہوں تولڑکی والوں کی بے عزتی کی جاتی ہے ۔ لڑکیوں کو طعنہ دیا جاتا ہے اور جہیز پر تلخ کلامی سے نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کی لڑکیاں شادی کی عمر سے آگے پہنچ کر بھی کنواری رہتی ہیں کیوں کہ اس طبقے کے والد ین اپنی لڑکیوں کو بھاری جہیز مہیا نہیں کر سکتے اور بغیر جہیز کے ان لڑکیوں کو کوئی قبول نہیں کرتا۔

اس صورت حال نے معاشرے پر بہت برے اثرات نقش کیے ہیں ۔ ان مجبوریوں اور برائیوں کو پیش نظر رکھتے ہوۓ حکومت پاکستان نے جہیز کے لیےقانون بنایا ہے جس پرعمل غریب اور متوسط طبقہ تو ضرور کرتا ہے مگر امرا نے اس کا ابھی تک کوئی عملی ثبوت نہیں دیا۔

جہیز معاشرے میں اور بھی بہت کی برائیوں کا موجب بنتا ہے ۔ جب غریب والدین اپنی لڑکیوں کے لیے جہیز مہیانہیں کر سکتے اور ان کی لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں تو یہ طبقہ روپے پیسے کے حصول کے لیے غلط ذرائع اپنا تا ہے ۔

اگر وہ ملازم ہے تو رشوت لینا شروع کر دیتا ہے اور اگر وہ کاروباری ہے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے اس طرح معاشرہ گندا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا انسداد معاشرے میں سرطان کے مرض کو روکنے کے مترادف ہے۔

موجودہ دور میں جب کہ معاشی پریشانی اور بدحالی نے غریب عوام کی دو وقت کی روٹی مشکل کر دی ہے اور اب جب کسی غریب کے گھر بیٹی جنم لیتی ہے تو اس غریب کی سوچ کا مرکز اسی دن سے بیٹی کا جہیز ہوتا ہے وہ اسی دن سے اس کی فکر میں لگ جاتا ہے کیوں کہ موجودہ دور میں لڑکی کا ذاتی کردار اور شکل وصورت کم دیکھی جاتی ہے بل کہ دیکھا جا تا ہے کہ اس کے والدین ان کے مطلوبہ جہیز کے معیار کے مطابق بھی ہیں یعنی وہ چیز کے علاوہ لڑکے اور لڑکی کی شادی کے بعد سیرو سیاحت کے لیے بیرون ملک بھیج سکتے ہیں یا کسی کارخانے میں ان کے لڑکے کا حصہ مخصوص کر سکتے ہیں ؟ اور جو مطلوبہ یا مذکورہ شرائط پوری نہیں کرتے ان لوگوں کی بلند کردار اور خوبصورت لڑکیاں بغیر جہیز کے گھر میں بیٹھی رہتی ہیں ۔

پس جہیز کی لعنت کا خاتمہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ سب سے پہلے با حیثیت اور صاحب اقتدار لوگ نمونہ قائم کر یں اور یہ مسئلہ برادریوں کی سطح پر حل کرنے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام بھی ان کے نقش قدم پر نہ چلیں۔

برادر یوں اور پنچایتوں کے فیصلے حکومتی قانون سے بھی زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں ۔ چناں چہ بعض   برادریوں نے شادی بیاہ کی تقریبات میں پر تکلف کھانوں کی بجائے باراتیوں کی تواضع چائے اور مشروبات سے کرنا شروع کر دی ہے ۔ اس طرح جہیز کے سلسلے میں برادر ایوں کی سطح پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں جس سے یہ مسئلہ حل ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بعض برائیاں بھی از خودختم ہو جاتی ہیں ۔

Find Relevant Posts:

Admin
Admin

I am interested in writing content for educational purpose.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *